انکارِ حدیث
کیوں؟ (۴)
از: مولانا محمد یوسف
لدھیانوی
پہلا صدیقی
خطبہ کہ ’’دستور خلافت‘‘ کتاب وسنت ہوں گے
لیکن کیا
مرتبہ حدیث اور منصب خلافت کی ذمہ داریوں کا بیان صرف اسی
موقع پر کیاگیا؟ جہاں تک صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم
اجمعین کے واقعات لوگوں کو مل سکتے ہیں ان کی روشنی میں
ہر شخص یہی سمجھنے پر مجبور ہوگا کہ نہ صرف حضرت صدیق بلکہ تمام
اکابر واصاغر صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے نزدیک
’’خلیفہ رسول اللہ‘‘ کی حیثیت احکام نبوت کی تنفیذ
ہی کی تھی۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ
ان کے نزدیک بدیہیات میں داخل تھا۔ لیکن اس
’’بدیہی‘‘ مسئلہ کو حضرت صدیق رضی اللہ عنہ بار بار کیوں
بیان کررہے تھے؟
مثلاً حضرت صدیق
کا پہلا خطبہ جو منبررسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مہاجرین وانصار
(رضی اللہ عنہم) کے کثیر مجمع کے سامنے پیش کیاگیا
جس کوآج کی اصطلاح میں حلف وفاداری کہیے تو بجا ہے اس میں
بھی قرآن حکیم کے ساتھ ’’سنت‘‘ کو دین کی بنیاد کے
طورپر انھوں نے پیش کیا۔ اور اسلام میں خلیفہ کا
منصب کیا ہے؟ اور ’’کتاب وسنت‘‘ کے ساتھ خلیفہ کے تعلق کی نوعیت
کیا ہوگی؟ اسی نکتہ کی وضاحت انھوں نے فرمائی۔
ابن سعد وغیرہ میں اس خطبہ کو ان الفاظ میں نقل کیاگیا
ہے:
’’یا أیھا الناسُ قد ولیتُ امرکم
ولستُ بخیرکُمْ ولکِن نزل القرآن وسن النّبیُّ صلی اللہ علیہ
وسلم السُنن فَعلمنا وتعلمنا أیُّھَا الناسُ انما أنا مُتّبعٌ ولَسْتُ
بِمُبتدعٍ فان أحسَنْتُ فأعینُونِی وأن زغتُ فَقُومونی‘‘ (بحوالہ اعجاز القرآن للباقلانی)
’’لوگو! مجھے تمہارے امور کا متولی بنادیاگیا۔
مجھے تم سے بہتر ہونے کا دعویٰ نہیں لیکن قرآن نازل ہوا
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنتیں جاری فرمائیں۔
پس آپ نے تعلیم دی اور ہم نے تعلیم حاصل کی۔ لوگو!
میں محض پیروی کرنے والا ہوں۔ نئی بات کو ایجاد
نہ کروں گا۔ پس اگر میں صحیح راستہ پر گامزن رہوں تو میری
مدد کرنا اور اگر (بالفرض) کتاب وسنت سے کجی اختیار کی تو مجھے
سیدھا کردینا‘‘
یہ اسلام کے
پہلے خلیفہ کا پہلا خطبہ ہے جس میں کتاب اور سنت کو دستور خلافت قرار
دے کر دونوں سے وفاداری کا عہد واقرار خلیفہ کی طرف سے کیاگیا
اور تمام مہاجرین وانصار سے وہ اپیل کرتے ہیں کہ اگر خلیفہ
اس حلف وفاداری پر قائم رہے تو ہر ممکن طریق سے اس کی مدد کی
جائے اگر خدانخواستہ خلیفہ میں کتاب وسنت کی کجی نظر آئے
تو پوری قوت سے اسے راہ راست پر لائیں۔ بلاشبہ حضرت صدیق
کا یہ خطبہ اسلامی تاریخ میں دستور خلافت کے لئے سنگ میل
کی حیثیت رکھتا ہے۔
صدیقی
اعلانات پر ایک اہم سوال
بہرحال سوال یہاں
یہی ہے کہ جن امور کو حضرت صدیق اپنے خطبات، مجالس اور خطوط میں
باصرار وتکرار جہاں ان کو موقع ملتا تھا اور بتلاچکا ہوں کہ حکمت الٰہیہ
ان کے لئے یہ موقع فراہم کررہی تھی، بیان کرتے رہتے تھے۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے نزدیک جب ان
امور کی حیثیت ’’بدیہیات اولیہ‘‘اور ’’ضروریات
دین‘‘ کی تھی۔ یعنی قرآن کے بیّنات سے
انحراف جس طرح خلیفہ کے لئے صحیح نہیں ٹھیک اسی طرح
سنّت نبویہ سے اعراض کی گنجائش بھی اس کے لئے نہیں،اور
امت کے لئے قرآن جس طرح حجت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن
کے علاوہ جو احکام و فرامین چھوڑے ہیں اور دین محمدی صلی
اللہ علیہ وسلم میں ان کا ثبوت قطعی ہے، محمد رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم پرایمان لانے والوں کے لئے ان کا تسلیم کرنا بھی
ضروری ہے۔ یہ امور جب صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم
اجمعین کے نزدیک ’’ضروریات‘‘ میں داخل ہیں توامت کے
پہلے خلیفہ کے لئے یہی ’’بدیہی مسئلہ‘‘ اس قدر اہمیت
کیوں اختیار کرگیا تھا کہ کبھی منبر رسول صلی اللہ
علیہ وسلم کا پایہ پکڑکر کبھی اپنے بھائی (عمررضوان اللہ
تعالی علیہم اجمعین) کی داڑھی پکڑ کر، کبھی
امیر جیش (اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ) کی رکاب تھام
کر وہ اسی کی تکرار، اسی کا اعلان اسی کی منادی
کیوں کئے جارہے تھے کہ۔
۱- دستور خلافت کے لئے کتاب اللہ وسنت رسول بنیادی
پتھر ہیں۔
۲- خلیفہ اسلام کی حیثیت متبع کی
ہوگی۔ مبتدع کی نہ ہوگی۔
۳- میں اس لشکر کو روک لینے کا مجاز نہیں
جس کے بھیجنے کا حکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم وحی الٰہی
سے فرماچکے ہیں۔
۴- میرا منصب نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے مقرر فرمودہ امیر کو معزول کردوں۔
۵- مجھ پر کیسے ہی حالات گزرجائیں لیکن
مجھ سے یہ نہیں ہوسکتا کہ میں فیصلہ نبوت کو تبدیل
کردوں۔
۶- حد یہ کہ میں اس جھنڈے کو کھول دینے کی
ہمت نہیں رکھتا۔ جسے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم باندھ چکے
ہیں ’’ولا حللت لواء عقدہ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ
علیہ وسلم‘‘ (ہدایہ ج۶، ۳۰۵، بحوالہ حیات الصحابہ)
۷- اس سے بڑھ کر یہ کہ ’’وأمَرَ منادیہ یُنادی غُزمَةً منی أن لا یتخلف
عن أسامَة من بعثہ مَن کانَ انتَدبَ مَعَہ فِی حیاةِ رسولِ اللّٰہ
صلی اللّٰہ علیہ وسلم‘‘ (حیات الصحابہ، ص:۴۱۰، ج۱)
’’جو شخص لشکر
اسامہ میں حیات نبوی میں شریک ہوچکے تھے میں
ان میں سے کسی کو عدم شرکت کی اجازت دینے کا بھی
اختیار نہیں رکھتا۔‘‘
یہ اعلانات
عام لوگوں کے نزدیک ممکن ہے کہ کسی اہمیت کے حامل نہ ہوں اور وہ
صرف اتنا کہہ کر آگے گذرجانے کی کوشش کریں، کہ کوئی وقتی
ضرورت اس اعلان کی پیش آئی ہوگی۔ اس لئے جس طرح
اوراحکام خلافت کی طرف سے دئیے جاتے ہیں یا بہت سے اعلان
کئے جاتے ہیں، کسی ضرورت کے تحت یہ اعلان بھی کردیاگیا
ہوگا، لیکن حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ان پے درپے
اعلانات میں ایمان ویقین کا نور، عزم و احتیاط کی
نزاکت اور دَرد وبے چینی کا سوز جو پایا جاتا ہے وہ کم از کم
مجھے تواجازت نہیں دیتا کہ، نظر عمیق اور فہم صحیح سے کام
لئے بغیر گزرنے والے سرسری طور پر اس مقام سے گزرجائیں اور ان
صدیقی بیانات کو معمولی چیز قرار دے کرپہلو تہی
کی کوشش کریں۔
منشاء صدیق
رضی اللہ تعالی عنہ کی توضیح
ان ’’صدیقی
کلمات‘‘ کا اصل منشاء کیا ہے اس کومعلوم کرنے کے لئے ہمیں اس پر غور
کرنا ہوگا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب اس عالم میں رونق
افروز تھے، اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان ہی دین
وشریعت تھی۔ لسان نبوت سے جو کچھ صادر ہوتا تھا، سننے والوں کے
لئے وہی دین اوراسلام تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کے حکم کا تسلیم کرلینا ایمانی علامت اور آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ سے پہلو تہی کرنا علامت نفاق تھی،
اہل ایمان کے لئے رضائے خداوندی، ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ
وسلم کے اتباع اور آپ کی فرمانبرداری میں منحصر تھی۔
اہل ایمان کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وفعل وحی
الٰہی کا تابع اور منشائے خداوندی کا ترجمان تھا۔ اس لئے
اہل اسلام کے لئے آخری مرجع ذات قدسی صفات تھی (صلی اللہ
علیہ وسلم) حکیم الامت شاہ ولی اللہ رحمة اللہ علیہ کے
الفاظ ہیں:
’’اما چوں ایّام
نبوت بود، وحی مفترض الطاعت در قلب پیغمبرے رسید و شک وشبہ را
آنجا ہیچ گنجائش نہ بود نہ در اوّل نہ در آخر‘‘۔ (ازالتہ الخفاء،ص:۹۹، ج۱)
’’جب تک نبوت کا
زمانہ تھا۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے قلب پر وحی
نازل ہوتی تھی جس کی اطاعت فرض ہے اور شک وشبہ کیلئے وہاں
قطعاً گنجائش نہ تھی۔ اوّل میں نہ آخر میں‘‘۔
وصال نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت ذہن وفکر کے دوراہے پر
لیکن وصال
نبوی سے دور نبوت ختم اور دور خلافت شروع ہوگیا اورامت اس حادثہ میں
یکایک ایک دور سے دوسرے دور میں منتقل ہوگئی اس وقت
امت ایک طرف اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے
سانحہ کبری پر ماتم کناں دیوانہ وار تڑپ رہی تھی۔
خدا کے سوا کون تھاجو ان کی تعزیت کرے۔ دوسری طرف یہ
فطری سوال کھڑا ہوگیا کہ آج کے بعد نبی صلی اللہ علیہ
وسلم اور امت کے درمیان تعلق کی نوعیت کیا ہوگی؟ کیا
امت کا رشتہ واطاعت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کٹ
گیا؟ یا بدستور باقی ہے۔ کیا آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے وصال کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی
پیروی امت کے لئے لازم ہوگی یا یہ قصہ وصال نبوی
پر ختم ہوگیا؟ کیا آپ کی زبان ناطق بالوحی سے صادر شدہ ہر
کلمہ اب بھی دین اسلام کا جزو سمجھنا ہوگا جیساکہ آپ کی
زندگی میں تھا یا ’’امیرجماعت‘‘ اور ’’مرکز ملت‘‘ اسلام
کے جدید کل پرزے تیار کیاکرے گا؟ کیا رضائے خداوندی
اتباع نبوی میں اب منحصر رہے گی، جس طرح آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کے زمانہٴ حیات میں تھی،یا یہ سعادت صرف
آپ کے زمانہٴ حیات تک تھی؟ کیا آپ کی ہر بات کو تسلیم
کرنے والا مومن اور تسلیم نہ کرنے والا منافق اب بھی قرار دیا
جائے گا؟ یا ایمان وکفر اور اخلاق ونفاق کا یہ معیاری
فرق صرف آپ کی زندگی تک تھا؟
قرآن مبین کی
سینکڑوں آیات میں آپ کی اطاعت، فرمانبرداری اور
امتثال امر کا حکم جو دیاگیا ہے کیاقرآن کا یہ مطالبہ اب
بھی موجود ہے یا یہ قرآنی مطالبہ وصال نبوی صلی
اللہ علیہ وسلم کے بعد مسلمانوں سے اٹھ گیا؟
کیا
مسلمانوں کا خلیفہ ہدایات نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
کا پوری طرح پابند ہوگا۔ یا آپ کا جانشیں ٹھیک وہی
منصب حاصل کرے گا جو زمانہ حیات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کو حاصل تھا؟ معاذ اللہ
خلیفہٴ
اسلام کی پوزیشن صحیح کیا ہوگی؟ اسے خلافت کی
بنیادوں کو کن خطوط پر استوار کرنا ہوگا؟ قرآن حکیم کے علاوہ سنت رسول
صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا برتاؤ کیا ہوگا؟
وحی الٰہی
کی نگرانی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ’’دین
قیم‘‘ کے جن نقوش کو چھوڑ گئے ہیں۔ جن جزئیات کی تعین
فرماگئے ہیں عقائد، عبادات، معاملات، خصومات اور اخلاق کا جو نظام آپ صلی
اللہ علیہ وسلم مرتب فرماگئے ہیں ان تمام چیزوں کو علیٰ
حالہ باقی رکھنا خلیفہ کا فرض ہوگا یا فیصلہ نبوت سے ہٹ
کر ’’دین قیم‘‘ کے نئے نقشے مرتب کرنے کی بھی اسے اجازت
ہوگی؟
آسمانی پیغام
کی حفاظت میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حلال وحرام،
صحیح اور غلط، جائز وناجائز کی جو فہرست امت کے سامنے پیش کی
تھی ان کو بلا تغیر وتبدل بدستور قائم رکھ کرنافذ کرنا خلیفہ
اسلام کا منصب ہوگا یا ان میں ردوبدل بھی اس کے لئے جائز ہوگا۔
الغرض دور نبوت
اور دور خلافت کے وسطی نقطہ میں جو اہم سوال پیداہونا چاہئے تھا۔
وہ یہی تھا کہ دور نبوت کے ختم اور دور خلافت کے شروع ہوجانے کے بعد
امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سنت رسول اللہ کا کیا
مقام ہوگا اور جانشین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی حیثیت
کیا ہوگی؟ عقلاً یہاں دو ہی صورتیں ممکن تھیں
اوّل یہ کہ جس طرح ایک ’’سربراہ مملکت‘‘ کے فیصلے صرف اس کی
حیات تک نافذ رہتے ہیں اس کی موت سے جیسے وہ خود بخود
معزول ہوجاتا ہے اسی طرح اس کے اوامر کی اطاعت بھی نہیں
رہتی۔ بلکہ اس کی جگہ اس کاجانشین لے لیتا ہے ٹھیک
یہی حال نبی اور خلیفہ نبی کا ہوکہ معاذ اللہ وصال
نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ذات رسالت مآب صلی اللہ علیہ
وسلم امت کی امانت سے معزول ہوگئی۔ اب نہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کو امت کے ساتھ امر ونہی کا تعلق رہا،نہ امت کو آپ کے ساتھ سمع و طاعت
کا بلکہ امر ونہی کے تمام اختیارات آپ صلی اللہ علیہ وسلم
کے بعد آنے والے خلفاء کی طرف منتقل ہوگئے۔ اب قرآن کاجو مفہوم یہ
خلیفہ متعین کرے۔ پوری امت کے لئے اسی کا ماننا
لازم ہوگا خواہ یہ مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان
کردہ مفہوم کے کتنا ہی خلاف کیوں نہ ہو اور اسلام کی جو تصویر
خلیفہ پیش کرے گا اب وہی صحیح اسلامی تصویر
کہلائے گی، خواہ یہ تصویر آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کے بیان کردہ نقشے کے کیسی ہی الٹ ہو (یہی
آجکل کے مغرب زدہ طبقہ کا موقف ہے جس کا منشاء مقام نبوت سے نا آشنائی ہے
بلکہ یہ تصورانکار نبوت ہی کی ماڈرن شکل ہے)
دوم یہ کہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بدستور صاحب امرونہی رہیں گے
امّت کو بدستور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سمع وطاعت کا تعلق باقی
رہے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کا خلیفہ آپ کے
ارشاد فرمودہ امرو نہی، حلال و حرام جائز و ناجائز احکام و قضایا نافذ
کرے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی فیصلے کی
خلاف ورزی نہ اس کیلئے جائز ہوگی اورنہ ملت کے لئے خلیفہ
کے ایسے احکام کی تعمیل جائز ہوگی، جن میں آپ کی
’’سنت مستفیضہ‘‘ سے انحراف نہ کیاگیا ہو۔ قرآن کے مفہوم
ومعانی اوراسلام کے نقوش بدستور وہی باقی رہیں گے جو
زمانہ نبوی میں تھے۔
حاصل یہ کہ
خلیفہ مطاع مستقل نہیں ہوگا، بلکہ اس کی اطاعت صرف اسی
لئے ہوگی اور اسی وقت تک ہوگی جب تک وہ نبی صلی
اللہ علیہ وسلم کی نیابت میں احکام نبویہ کو نافذ
کرتا رہے۔ اس کی حیثیت صرف یہ ہوگی کہ آپ کے
وصال کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اوراوامر ونواہی کی
تنفیذ کرے۔
بہرحال وصال نبوی
صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ’’رسول‘‘ اور ’’جانشینِ رسول‘‘ کا
مرتبہ اسلام میں کیاہوگا اس کی یہی دو صورتیں
جو میں نے ذکر کیں ہوسکتی تھیں۔ آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم کے وصال کے وقت امت اور قیامت تک آنے والی امت،
ذہن وفکر کے اسی دوراہے پر کھڑی تھی۔ حضرت ابوبکر رضی
اللہ تعالی عنہ جب خلیفہ ہوئے تو قت کا سب سے پیچیدہ
مسئلہ اورامت کے لئے سب سے اہم اصولی سوال یہی تھا جس کو بیان
کرتا چلا آرہا ہوں۔ اس کی پیچیدگی کی وجہ یہ
نہ تھی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے
لئے یہ ’’علم‘‘ نیاتھا۔ آپ مجھ ہی سے سن چکے ہیں کہ
یہ مسئلہ صحابہ کرام کے نزدیک بدیہیات میں سے تھا۔
اصل وجہ اس سوال کی اہمیت کی یہ تھی کہ منشائے
خداوندی جسے ’’خلیفہ اوّل اور بلاواسطہ جانشین رسول‘‘ بنارہی
تھی۔ یابی اللہ والمومنون الا ابابکر آنے والی پوری
امت کی نظریں اس پر جمی ہوئی تھیں۔ آنے والے
تمام خلفاء کے لئے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کا طرز عمل قانونی
اصطلاح میں ’’نظیر‘‘ اور شرعی اصطلاح میں ’’سنت خلیفہ
راشد‘‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ
وسلم کے بعد خلافت راشدہ اس کی ماہیت، اس کے حل وعقد اس کے انتظام
وانصرام اور اس کے طرز عمل کا پہلا تجربہ زمین والوں کو ہورہا تھا۔ گویا
ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خلیفہ اوّل بنائے جانے کا مطلب یہ تھا
کہ صدیقی خلافت جن نقوش پر استوار کی جائے گی، آئندہ
خلافت صحیحہ کے لئے وہی پتھر کی لکیریں بن جائیں
گی۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں
جو چیز دستور خلافت قرار پائے گی ہمیشہ کے لئے خلافت شرعیہ
کادستور وہی رہے گا۔ گویا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے نحیف
کندھوں پر ملت کے صرف موجودہ دور اور موجودہ افراد کا بوجھ نہیں تھا بلکہ
خلافت کے ’’نقاش اوّل‘‘ کی حیثیت سے قیامت تک آنے والی
تمام امت اور خلفاء کے لئے خلافت کے صحیح خطوط متعین کرنا اور غلط
نقوش کو جو کبھی پیدا کئے جاسکتے تھے ایک ایک کرکے مٹانا
بھی ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے فرائض میں شامل تھا۔
غرض یہ کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اس عقیدہ
کو کہ ’’دستور خلافت‘‘ کتاب وسنت ہیں ہدایات کی آہنی زنجیر
بنادیا جسے کبھی توڑا نہیں جاسکتا۔
دوسری طرف
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کی نزاکتوں پر غور کرو تو صحیح
اندازہ ہوگا کہ ان صدیقی اعلانات میں کتنا زور ہے۔ بلاشبہ
صحابہ کرامرضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے نزدیک ’’سنت
رسول اللہ کامقام‘‘ اور ’’خلیفہٴ اسلام کا منصب‘‘ یہ دونوں چیزیں
اپنے اندر کوئی خفا نہیں رکھتی تھیں۔ لیکن
حضرت ابوبکر اپنی آواز انہی تک محدود نہ رکھنا چاہتے تھے جو ان کے
سامنے موجود تھے بلکہ وہ اپنی گرجتی ہوئی آواز کو قیامت کی
دیواروں سے ٹکرا کر پوری امت کے خلفاء کو آگاہ کردینا چاہتے تھے
کہ خلیفہ اسلام کی صحیح پوزیشن کیاہے۔
بسا اوقات ایک
مسئلہ ایک زمانہ میں بدیہیات میں شمار ہوتا ہے لیکن
دوسرے زمانے کے لوگ اپنی غباوت کی وجہ سے اسے نظری بلکہ ناممکن
بناڈالتے ہیں۔ کیا آج ’’دین قیم‘‘ کے واضح اور بدیہی
مسائل ’’نظر وفکر‘‘ کی آماجگاہ بنانے کا تماشا ہم اپنی آنکھوں سے نہیں
دیکھ رہے ہیں۔ حضرت ابوبکر چاہتے تھے کہ ان کی یہ
آواز جو حلف وفاداری کی شکل میں منبر رسول صلی اللہ علیہ
وسلم سے نشرکی جارہی ہے۔ قیامت تک کے لئے ہر آنے والے گوش
زد ہوجائے۔ یعنی ’’أیُّھَا
الناسُ انما أنا مُتبِعٌ ولَسْتُ بِمُبتدعٍ‘‘
’’لوگو! میں
صرف قرآن وسنت کی پیروی کرنے والا ہوں نئی بات ایجاد
کرنے والا نہیں ہوں۔‘‘
تاکہ ’’مرتبہ حدیث‘‘
کے ساتھ ساتھ ’’منصب خلافت‘‘ کا مسئلہ جس طرح آج والوں کے لئے بدیہی
ہے کل والوں کے لئے بھی بدیہی بن جائے۔ اور یوں اس
مسئلہ کی ’’بداہت‘‘ ایسی آہنی زنجیر میں تبدیل
ہوجائے کہ آنے والی کوئی بھی طاغوتی قوت اس کے توڑ ڈالنے
پر قادر نہ ہو۔ الغرض یہ مسئلہ جیسے آج شک وشبہ سے بالاتر ہے،
آئندہ ہر دور میں بھی اسے شک و تردد سے بالا تر سمجھا جائے یہ
ذمہ داری جس قدر اہم تھی، اسی قدر فکر ان کو اس سے عہدہ برا
ہونے کی تھی۔ اس کے لئے انھوں نے کتنی محنت فرمائی۔
اس کی کچھ داستان آپ کے سامنے آچکی ہے۔ یعنی قرآن
کے ساتھ سنت کو بنیاد خلافت قرار دے کر مختلف مجالس میں مختلف عنوانات
سے اس کا بار بار اعلان کردیا اور عملی طور پر آنحضرت صلی اللہ
علیہ وسلم کی سنت کو اس قدر مضبوطی سے تھاما گویا جس قدر
کارنامے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ سے ظہور پذیرہوئے، وہ
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے ظاہر ہورہے تھے، ابوبکر رضی
اللہ تعالی عنہ آلہ اور جارحہ کی طرف احکام نبویہ کی تنفیذ
فرمارہے ہیں۔
حضرت امام شاہ ولی
اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ایام
خلافت بقیہ ایام نبوت بودہ است گویا در ایام نبوت حضرت پیغمبر
صلی اللہ علیہ وسلم تصریحا بزبان مے فرمودہ ودرایامِ
خلافت بدست وسراشارہ مے کرد‘‘
’’خلافت راشدہ کا
دور دور نبوت ہی کا تھا کہنا چاہئے کہ زمان نبوت میں آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم زبان سے تصریحاً فرماتے تھے اورایام خلافت میں
ہاتھ اور سر کے ساتھ اشارہ فرمارہے تھے۔‘‘
آنحضرت صلی
اللہ علیہ وسلم کے احکام تصریحیہ اور اشاریہ کی تنفیذ
میں خلیفہٴ اوّل رضی اللہ تعالی عنہ نے جس بیداری
اور نزاکت احساس سے کام لیا بلاشبہ یہ انہیں کا حصہ تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالی عنہ کے اسی
طرز عمل کانتیجہ ہے کہ عملی کمزوریوں کے باوجود خلافت راشدہ کے
بعد آنے والے کسی حکمران کو بھی یہ جرأت نہ ہوسکی کہ
قانونی طور پر حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم اور
سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’دینی سند‘‘ کی حیثیت
سے تسلیم نہ کرے اور نہ قیامت تک ان شاء اللہ کسی کو یہ
جرأت ہوسکے گی۔ اسلام میں سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کا کیا مقام ہے اور خلیفہ کاکیا منصب ہے یہ مسئلہ صدیقی
محنت سے آفتاب نیم روز کی طرح واضح ہوگیا فالحمد للہِ
أولاً وآخرًا.
تمت بالخیر
٭٭٭
-------------------------------------------
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 1-2 ،
جلد: 95 ، صفر، ربیع الاول 1432 ہجری مطابق جنوری، فروری 2011ء